نئی دہلی، 9/دسمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)پچھلے کچھ دنوں سے ملک بھر میں مذہبی مقامات کو لے کر تنازعات کا ماحول گرم ہے۔ کہیں مساجد کے سروے کی بات ہو رہی ہے تو کہیں درگاہوں کے نیچے مندر ہونے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ ان معاملات نے نہ صرف عوام کے جذبات کو متاثر کیا ہے بلکہ کئی جگہوں پر حالات کشیدہ ہونے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ حال ہی میں ایک تنازعے میں سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کے دوران جھڑپیں ہوئیں، جن میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ اس دوران سیاسی حلقوں میں بھی گرما گرم بیانات دیے جا رہے ہیں، کچھ لوگ ان اقدامات کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ کچھ ان کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ اجمیر درگاہ سے متعلق مندر ہونے کے دعوے پر سماج وادی پارٹی کے سینئر رہنما رام جی لال سمن نے کہا کہ ’’اجمیر درگاہ تاریخ میں مذہبی ہم آہنگی کی علامت رہی ہے۔ یہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی پوری عقیدت سے آتے ہیں، اور یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔‘‘
اقلیتی برداری کے خلاف لگائے جا رہے الزام کے جواب میں رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ مسلمان اپنے آپ کو مغلوں کا نہیں بلکہ پیغمبر محمد کا نسل مانتے ہیں۔ مسجد کے نیچے مندر کے دعویٰ کے درمیان رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ’’1991 کے پارلیمنٹ ایکٹ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ مندر کی جگہ مندر اور مسجد کی جگہ مسجد رہے گی۔‘‘ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ کے بیان کا ذکر کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ ’’موہن بھاگوت نے بھی سال 2022 میں کہا تھا کہ ہر مسجد یا ہر درگاہ کا کھدائی کرانا صحیح نہیں ہے۔‘‘ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اجمیر شریف کی درگاہ میں دنیا کے بڑے سے بڑے لوگوں نے حاضری دی ہے۔
سماج وادی پارٹی کے جنرل سکریٹری رام جی لال سمن نے مقدس اجمیر شریف کی روایات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہاں پر ہر سال وزیر اعظم کی جانب سے چادر پوشی کروائی جاتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ درگاہ ہندو مسلم اتحاد کی شاندار علامت ہے۔ ایسے میں ان معاملوں پر تنازعہ کھڑا کرنا مناسب نہیں ہے۔ راجیہ سبھا رکن کے مطابق اجمیر شریف کی درگاہ پر زیارت کرنے والوں میں مسلم طبقے سے زیادہ ہندو طبقے کے لوگ ہیں۔ بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’کچھ لوگوں کو رات کے خواب میں بھی بابر اور تمام مغل حکمراں نظر آتے ہیں۔‘‘